امام رضا (ع) کی نظر میں مومن کی صفات

29 April 2024

04:26

۳,۲۳۶

خبر کا خلاصہ :
آخرین رویداد ها

آسمان امامت ولایت کی آٹھویں آفتاب ثامن الحجج،

حضرت علی بن موسی الرضا(ع)

 کی روز تولد کی مناسبت سے
حضرت بقیّة الله الاعظم(عج)اور تمام مسلمین کی خدمت میں تبریک عرض کرتے ہیں


امام رضا (ع) کی نظر میں مومن کی صفات


اسی مناسبت سے آپ کے گہربار کلمات میں سے ایک کلام کو آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں

قَالََ عَلِيُّ بْنُ مُوسَى الرِّضَا(ع‏): «لَا يَتِمُّ عَقْلُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ حَتَّى تَكُونَ فِيهِ عَشْرُ خِصَالٍ الْخَيْرُ مِنْهُ مَأْمُولٌ وَ الشَّرُّ مِنْهُ مَأْمُونٌ يَسْتَكْثِرُ قَلِيلَ الْخَيْرِ مِنْ غَيْرِهِ وَ يَسْتَقِلُّ كَثِيرَ الْخَيْرِ مِنْ نَفْسِهِ لَا يَسْأَمُ مِنْ طَلَبِ الْحَوَائِجِ إِلَيْهِ وَ لَا يَمَلُّ مِنْ طَلَبِ الْعِلْمِ طُولَ دَهْرِهِ الْفَقْرُ فِي اللَّهِ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الْغِنَى وَ الذُّلُّ فِي اللَّهِ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الْعِزِّ فِي عَدُوِّهِ وَ الْخُمُولُ أَشْهَى إِلَيْهِ مِنَ الشُّهْرَةِ ثُمَّ قَالَ ع الْعَاشِرَةُ وَ مَا الْعَاشِرَةُ قِيلَ لَهُ مَا هِيَ؟ قَالَ(ع): لَا يَرَى أَحَداً إِلَّا قَالَ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي وَ أَتْقَى إِنَّمَا النَّاسُ رَجُلَانِ رَجُلٌ خَيْرٌ مِنْهُ وَ أَتْقَى وَ رَجُلٌ شَرٌّ مِنْهُ وَ أَدْنَى فَإِذَا لَقِيَ الَّذِي شَرٌّ مِنْهُ وَ أَدْنَى قَالَ لَعَلَّ خَيْرَ هَذَا بَاطِنٌ وَ هُوَ خَيْرٌ لَهُ وَ خَيْرِي ظَاهِرٌ وَ هُوَ شَرٌّ لِي وَ إِذَا رَأَى الَّذِي هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ وَ أَتْقَى تَوَاضَعَ لَهُ لِيَلْحَقَ بِهِ فَإِذَا فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ عَلَا مَجْدُهُ وَ طَابَ خَيْرُهُ وَ حَسُنَ ذِكْرُهُ وَ سَادَ أَهْلَ زَمَانِهِ‏».

وَ سَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ «وَ مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ»؟ فَقَالَ(ع): التَّوَكُّلُ دَرَجَاتٌ مِنْهَا أَنْ تَثِقَ بِهِ فِي أَمْرِكَ كُلِّهِ فِيمَا فَعَلَ بِكَ فَمَا فَعَلَ بِكَ كُنْتَ رَاضِياً وَ تَعْلَمَ أَنَّهُ لَمْ يَأْلُكَ خَيْراً وَ نَظَراً وَ تَعْلَمَ أَنَّ الْحُكْمَ فِي ذَلِكَ لَهُ فَتَتَوَكَّلَ عَلَيْهِ بِتَفْوِيضِ ذَلِكَ إِلَيْهِ وَ مِنْ ذَلِكَ الْإِيمَانُ بِغُيُوبِ اللَّهِ الَّتِي لَمْ يُحِطْ عِلْمُكَ بِهَا فَوَكَلْتَ عِلْمَهَا إِلَيْهِ وَ إِلَى أُمَنَائِهِ عَلَيْهَا وَ وَثِقْتَ بِهِ فِيهَا وَ فِي غَيْرِهَا.

وَ سَأَلَهُ أَحْمَدُ بْنُ نَجْمٍ عَنِ الْعُجْبِ الَّذِي يُفْسِدُ الْعَمَلَ؟ فَقَالَ(ع): الْعُجْبُ دَرَجَاتٌ مِنْهَا أَنْ يُزَيَّنَ لِلْعَبْدِ سُوءُ عَمَلِهِ فَيَرَاهُ حَسَناً فَيُعْجِبُهُ وَ يَحْسَبُ أَنَّهُ يُحْسِنُ صُنْعاً وَ مِنْهَا أَنْ يُؤْمِنَ الْعَبْدُ بِرَبِّهِ فَيَمُنُّ عَلَى اللَّهِ وَ لِلَّهِ الْمِنَّةُ عَلَيْهِ فِيه‏.

(تحف العقول عن آل الرسول:443)

امام رضا  عليه السلام نے فرمايا:

جب تک کسی مسلمان میں یہ دس خصلتیں نہ ہوں اس کا عقل کامل نہیں ہے :

١۔خدا سے اچھائی کا امید وار ہو ، ٢۔اس کے شر سے امان میں ہو ، ٣۔دوسروں کی اچھائی اور نیک کاموں کی قدر کرے  ، ٤۔ خود نے جو نیک کام انجام دیا ہے اسے ناچیز سمجھے ،  ٥۔نیازمندوں کے مراجعہ سے تھکاوٹ محسوس نہ کرے ، ٦۔ اور نہ ہی طول عمر میں علم حاصل کرنے سے تھک نہ جائے ، ٧۔ باطل طریقہ سے توانگر ہونے سے خدا کی راہ پر استقامت کر کے فقر و فاقہ کو پسند کرے ، ٨۔اسے حق کی راہ میں ہو کر ذلیل ہونا خدا کی دشمن کے ساتھ ہو کر سربلند ہونے سے زیادہ پسدیدہ ہو، ٩ ۔اسے گمنام ہونا مشہور ہونے سے زیادہ پسندیدہ ہو ، اس کے بعد آپ علیہ السلام نے فرمایا اور دسواں اور کیا ہے یہ دسواں ؟

لوگوں نے آپ (ع) سے پوچھا : وہ کیا ہے ؟ فرمایا : جس کوبھی دیکھے وہ یہ بولے : وہ مجھ سے بہتر ہے اور مجھ سے زیادہ پرہیزگار ہے ، ایسے شخص کے پاس لوگوں کی دو قسمیں ہیں : ایک گروہ وہ ہیں جوخود اس سے بہت زیادہ اچھا اور پرہیزگار ہیں ، اور دوسرا گروہ وہ ہے جو خود اس سے بدتر اور پست فطرت ہیں ، جب اپنے سے بدتر اور پست فطرت انسانوں سے ملاقات ہوتی ہے تو وہ یہ کہے گا :شاید اس کی نیکی اور اچھائی پوشیدہ ہے کہ اس کی بھلائی اسی میں ہے اور میری نیکی اور اچھائی ظاہر اور آشکار ہے کہ یہ میرے لئے اچھا نہیں ہے ، اور جب کسی ایسے انسان سے ملاقات ہو جو اس سے اچھا او رپرہیزگار ہو تو اس کے سامنے تواضع کرتا ہے تا کہ اسے جا ملے ، پس جب بھی انسان مومن ایسا کرے تو اس کی بزرگواری بڑھ جاتی ہے اور اس کی اچھائی پاک اور دلپسند اور نیک نام ہو جاتا ہے ، اور اپنے زمانہ کے لوگوں کا آقا بن جاتا ہے ۔

کسی شخص نے آپ (ع) سے اس آیہ کریمہ کے بارے میں سوال کیا '''' اما م علیہ السلام نے فرمایا : خدا پر توکل کرنے کے کچھ درجات ہیں : ایک یہ ہے کہ تمام امور میں جو تم سے مربوط ہو جو بھی واقع ہو جائے اسی پر اعتماد کرے ، خداتمہارے ساتھ جو بھی کرے اس پر راضی ہو جائے اور یہ جان لے کہ وہ تمہارے بارے میں کسی بھی اچھائی سے کوتاہی نہیں کرتا ، اور یہ بھی جان لیں کہ اس بارے میں حکم اور فرمان اسی کا ہے لہذا اپنے کاموں کو خداپر چھوڑ دو اور اسی پر توکل کرو، اور ان امور میں سے خدا کے غیب اور پوشیدہ امور پر اعتقاد اور ایمان لانا ہے ، کہ تمہارا علم اور سمجھ اس کو سمجھنے سے قاصر ہے ، پس اس علم کو خدا پر اور اس کے امناء پر چھوڑ دیں ، اور ان پوشیدہ امور پر اسی پر اعتماد کرے ۔

اور احمد بن نجم نے آپ سے پوچھا : خودپسندی اور عجب جو انسان کے تباہ ہونے کا سبب بنتا ہے وہ کیا ہے ؟ فرمایا : عجب اور خودپسندی کے بھی کچھ درجات ہیں : ان میں سے ایک وہ برا کردار ہے کہ جو خود انسان کی نظروں کے سامنے آجاتا ہے اور خود اسے بہت پسند کرتا ہے او روہ اپنے آپ پر فخر کرنے لگتا ہے اور وہ خود یہ سوچنا شروع کرتا ہے کہ وہ  کتنا اچھا کام کر رہا ہے ، ایک اور درجہ یہ ہے کہ خدا پر ایمان لے آئے اور اسی ایمان لانے پر خدا پر منت ڈالے ، در حالیکہ اس بارے میں خدا خود اس پر منت ڈالتا ہے ۔

 

 

 

 

 

 

 

برچسب ها :